سورة فاتحہ کا نام اور وجہ تسمیہ
اس کا ایک نام فاتحہ ہے کیونکہ قرآن کریم کا افتتاح اور اس كى شروعات اسی سے ہوتى ہے. سورة فاتحہ کا دوسرا نام ”الحمد “ ہے کیونکہ الحمد سے شروع کی جاتی ہے. اس کا تیسرا نام ”ام القرآن“ یا ام الکتاب“ ہے. ام ہر چیزکی اصل کو کہتے ہیں کیونکہ اس سورة کے مضامین پورے قرآن کے لیے بمنزلہ اصل اور جڑ کے ہیں اوراس سورة فاتحہ میں پورے قرآن کریم کے مضامین کا اجمالی خاکہ موجود ہے جس کی تفصیل پورا قرآن کریم ہے ۔
اس کا چوتھا نام ”سبع مثانی“ ہے یعنی سات آیتیں دہرائی ہوئی کیونکہ اس سورة کو نماز کی ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے۔ اس کا پانچواں نام ”کافیہ“ ہے کیونکہ قرآن کریم کے سارے مضامین پراجمالی طور پرکافی ہے، اس کا چھٹا نام ”سورة الکنز“ ہے. کنز کے معنی خزانہ کے ہیں. آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سورة فاتحہ میرے عرش کے خزانوں میں ایک خزانہ ہے. اس کا ساتواں نام ”سورة الشفاء“ ہے. آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فاتحہ موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے. اس کا آٹھواں نام ”سورة الاساس“ ہے. اساس کا معنی بنیاد ہے کیونکہ یہ سورة پورے قرآن کریم کی بنیاد ہے۔
سورہ فاتحہ كے فضائل
حضرت ابو سعید بن المعلی سے منقول ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: میرے ساتھ آئیں ، تجھے قرآن کی سب سے بڑی سورة مسجد سے نکلنے سے پہلے سکھا دوں گا میں ساتھ ہوگیا ، جب مسجد کے دروازے پر پہنچے تو مجھے اچھی طرح یاد ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ سورة (آیت) ” الحمد اللہ رب العلمین “۔ ہے اور وہی سبع المثانی اور وہی قرآن عظیم ہے جو مجھ پر نازل ہوئی۔ (صحيح بخارى: 4474، سنن ابو داود: 1458)
حضرت ابی بن کعب (رض) سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ میں تمہیں ایسی سورة سکھاؤں گا جو نہ تو توراۃ میں نازل ہوئی نہ زبور میں اور نہ اس جیسی کوئی اور سورة قرآن میں ہے۔ (سنن ترمذى: 2875، سنن دارمى: 3416)
سورہ فاتحہ كے فوائد
امام بزار اپنی مسند میں سیدنا حضرت انس بن مالک (رض) سے لائے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : جو شخص (سوتے وقت) اپنا پہلو زمین سے لگا کر فاتحہ اور (آیت) ” قل ھو اللہ احد “۔ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلے ہر مصیبت سے امان پائے سوائے اس کے کہ موت اس کے مقدر میں ہو ۔(مسند بزار: 7393)
قطب الارشاد حضرت بہلوی (رح) لکھتے ہیں کہ: مشائخ کے اعمال مجربہ میں مذکور ہے کہ سورة فاتحہ اسم اعظم ہے ہر مطلب کی خاطر اسے پڑھا جاسکتا ہے اور اس کے دو طریقے ہیں:
(١) سنت فجر اور فرض کے درمیان ”بسم اللہ“ کی میم کو ” الحمد للہ “ کی لام کے ساتھ ملا کر ٤١ بار چالیس روز تک پڑھے ، جو مطلب بھی ہوگا حاصل ہوجائے گا ، اگر شفاء مریض پر جادو کھولنے کے لیے ہو تو پانی پر دم کرکے انھیں پلائیں ۔
(٢) چاند کی پہلی اتوار کو سنت فجر اور فرض فجر کے مابین بغیر قید اتصال یعنی ” بسم اللہ “ کی میم کو ” الحمد للہ “ کی لام کے ساتھ ملائے بغیر ستر مرتبہ پڑھیں ، اس کے بعد ہر روز اسی وقت دس ، دس مرتبہ کم کرتے جائیں حتی کہ اتوار کو ختم ہوگی ، اگر پہلے مہینے میں مطلب حاصل نہ ہو تو دوسرے اور تیسرے مہینے میں بھی ایسا ہی کریں ان شاء اللہ مطلب براری ہوگی ، پرانے امراض میں چالیس دن تک گلاب اور مشک وزعفران کے ساتھ چینی کے پیالہ میں لکھ کر دھو کر پلانا مجرب ہے اور دانتوں کے درد ، سر کے درد ، پیٹ کے درد پر اور دوسرے دردوں پر سات بار پڑھ کر دم کرنا بھی مجرب ہے۔ (الکلمۃ الراجحہ ٢٤٣، ٢٤٣)
خلاصہ سورہ
حضرت لاہوری (رح) لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں بنیادی طور پر تین مسئلے بیان کئے گئے ہیں توحید رسالت ، اور قیامت ان کو اصل الاصول کہتے ہیں یہ سورة پورے قرآن کریم کے مضامین کا اجمالی نقشہ ہے پہلی دو آیتوں میں توحید کا ذکر ہے تیسری آیت میں قیامت کا ذکر ہے چھٹی آیت میں رسالت کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کے نقش قدم پر چلنے کا ذکر ہے اور آیت نمبر سات میں مردود دین الہی کا ذکر ہے۔ (ترجمہ حضرت لاہوری)
حضرت مولانا خیر محمد جالندہری صاحب (رح) لکھتے ہیں : اس سورة میں تین چیزوں کا ذکر ہے۔
(١) ۔ حق تعالیٰ کی عظمت وجلالت کا اعتراف ” الحمد للہ “ تا ” مالک یوم الدین “۔ (٢) ۔ اپنی عبدیت اور احتیاج کا اقرار ” ایاک نعبد وایاک نستعین “۔ (٣) ۔ اپنے مطلب کا اظہار ” اھدنا “ تا آخر۔
سورة فاتحہ کی آیات کا باہمی ربط اور طریق معرفت اللہ
ان آیات کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا تعلق ہے کہ موتیوں کی طرح ایک آیت دوسری آیت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ جب انسان کہتا ہے (آیت) ” الحمد للہ “۔ تو اللہ کا نام آیا اب دستور کائنات ہے کہ جب کسی کو آتا ہے تو اس کی معرفت حاصل کی جاتی ہے تاکہ اس کی پوری پہچان حاصل ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی معرفت کا شوق ہوا اس کی ذات تو وراء الوری ہے آنکھوں سے اوجھل ہے نظر نہیں آتی تو اس کی معرفت اور پہچان صفات سے ہوگی اس لیے حق تعالیٰ شانہ نے یہاں صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلی صفت کہ وہ (آیت) ” رب العلمین “۔ ہے کہ سارے جہان کا پالنے والا ہے ، دوسری صفت کہ وہ (آیت) ” الرحمن “۔ ہے کہ دنیا میں تصرف کرنے والا ہے۔ اور تیسری صفت ” الرحیم “ ہے کہ وہ آخرت میں تصرف کرنے والا ہے ، چوتھی صفت (آیت) ” ملک یوم الدین “۔ ہے کہ اللہ تعالیٰ روز جزاء کا مالک ہے جس میں یہ صفات ہیں اسی کا نام اللہ ہے جب اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان حاصل ہوگئی تو اب اس سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔
طریق ملاقات اللہ :۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی سے ملاقات کا ارادہ ہو تو اس کے لیے چار چیزوں کی اشد ضرورت پڑتی ہے۔ (١) :۔ زاد راہ : یعنی ضروری سامان جو ضروریات کے لیے کام آئے۔ (٢) ۔ سواری : جس پر سوار ہو کر سفر کر کے منزل مقصود تک پہنچ جائے۔ (٣) ۔ رفیق : جو سفر کے ساتھ ہوں تاکہ ان کی معاونت سے سفر بہتر طریقے پر ہو ۔ (٤) ۔ راہزن سے بچنے کا سامان :۔ ڈاکو ، چور سے بچنا تاکہ نقصان سے محفوظ رہے تو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے زاد راہ ضروری ہے تو زاد راہ کا ذکر (آیت) ” ایاک نعبد “۔ میں ہے ” ایاک نعبد “۔ میں ہے یعنی اللہ کی عبادت کرنا یہ سامان ہے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے طے کرنے کا ۔ اور سواری کا ذکر (آیت) ” ایاک نستعین “۔ میں ہے یعنی مدد اللہ تعالیٰ سے چاہنا یہ سواری ہے اس پر انسان سوار ہو کر اللہ تعالیٰ سے مل سکے گا اگر اللہ تعالیٰ سے مدد نہ مانگے تو منزل مقصود تک نہ پہنچے گا ۔ اور رفیق سفر کا ذکر (آیت) ” صراط الذین انعمت علیھم “۔ میں ہے کہ جن پر اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعام کیا ہے ان کو اپنے سفر کا ساتھی بناؤ ان کی صحبت اختیار کرو، منزل مقصود حاصل کر لوگے۔
اور راہزنوں کا ذکر (آیت) ” غیر المغضوب علیھم ولا الضالین “۔ میں ہے کہ جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا ہے اور گمراہ ہیں سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں ان سے بچو اگر ان کی صحبت میں آئے تو دین سے ہاتھ دھو بیٹھو گے یہ دین کے چور ہیں اسلام میں نقب لگاتے ہیں جب ان امور کو بجا لاؤ گے تو کامیابی سے ہمکنار ہوجاؤ گے۔ (از شیخ درخواستی (رح)