تفسیر بسم اللہ الرحمن الرحیم

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ترجمہ: اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

تفسیر

سورة الفاتحہ اگرچہ قرآن حکیم کی مختصر سورتوں میں سے ہے ، اس کی کل سات آیات ہیں،  لیکن یہ قرآن حکیم کی عظیم ترین سورت ہے۔ اس سورة مبارکہ کو اُمّ القرآن بھی کہا گیا ہے اور اساس القرآن بھی۔ یعنی یہ پورے قرآن کے لیے جڑ ،    بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ الفاتحہ کس اعتبار سے ہے ؟ فَتَحَ کے معنی ہیں کھولنا۔ چونکہ قرآن حکیم شروع اس سورت سے ہوتا ہے لہٰذا یہ   سورة الفاتحہ        قران  کو شروع یا کھولنے والی سورت  ہے۔ اس کا ایک نام الکافیہ  یعنی کفایت کرنے والی ہے  جبکہ ایک نام  الشافیہ یعنی شفا دینے والی ہے۔

یہ سورة مبارکہ پہلی مکمل سورت ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے متفرق آیات نازل ہوئیں۔ سب سے پہلے سورة العلق کی پانچ آیتیں،   پھر سورة نٓ یا سورة القلم کی سات آیتیں،   پھر سورة المزمل کی نو آیتیں،   پھر سورة المدثر کی سات آیتیں اور پھر سورة الفاتحہ کی سات آیتیں نازل ہوئیں۔ لیکن یہ پہلی مکمل سورت ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے ۔

سورة الحجر میں ایک آیت بایں الفاظ آئی ہے 

وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(۸۷)

 ترجمہ:  ہم نے اے نبی ﷺ آپ ﷺ  کو سات ایسی آیات عطا کی ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن۔

تعداد کے اعتبار سے اس کی سات آیات متفق علیہ ہیں۔ البتہ اہل علم میں ایک اختلاف ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک جن میں امام شافعی رض بھی شامل ہیں  آیت بسم اللہ بھی سورة الفاتحہ کا جزء ہے۔ ان کے نزدیک بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  سورة الفاتحہ کی پہلی آیت اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ٥ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ  ساتویں آیت ہے۔ لیکن دوسری طرف امام ابوحنیفہ رح کی رائے یہ ہے کہ آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزء نہیں ہے  بلکہ آیت بسم اللہ قرآن مجید کی کسی بھی سورة کا جزء نہیں ہے  سوائے ایک مقام کے جہاں وہ متن میں آئی ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کو جو خط لکھا تھا اس کا تذکرہ سورة النمل میں بایں الفاظ آیا ہے

 إِنَّهُ مِن سُلَيۡمَـٰنَ وَإِنَّهُ بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ (٣٠)

سورتوں کے آغاز میں یہ علامت کے طور پر لکھی گئی ہے کہ یہاں سے نئی سورة شروع ہو رہی ہے۔ ان حضرات کے نزدیک اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  سورة الفاتحہ کی پہلی آیت اور    اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  پانچویں آیت ہے  جبکہ   صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِم    چھٹی اور  غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ    ساتویں آیت ہے۔ جن حضرات کے نزدیک آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزء ہے وہ نماز میں جہری قراءت کرتے ہوئے  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  بھی بالجہر پڑھتے ہیں اور جن حضرات کے نزدیک یہ سورة الفاتحہ کا جزء نہیں ہے وہ جہری قراءت کرتے ہوئے بھی بسم اللہ خاموشی سے پڑھتے ہیں اور  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  سے قراءت شروع کرتے ہیں۔

نماز کا جزو لازم

اس سورة مبارکہ کا اسلوب کیا ہے ؟ یہ بہت اہم اور سمجھنے کی بات ہے۔ ویسے تو یہ کلام اللہ ہے  لیکن اس کا اسلوب دعائیہ ہے۔ یہ دعا اللہ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ مجھ سے اس طرح مخاطب ہوا کرو   جب میرے حضور میں حاضر ہو تو یہ کہا کرو۔ واقعہ یہ ہے کہ اسی بنا پر قرآن مجید کی اس سورت کو نماز کا جزو لازم قرار دیا گیا ہے   بلکہ سورة الفاتحہ ہی کو حدیث میں  الصَّلاۃ  کہا گیا ہے  یعنی اصل نماز سورة الفاتحہ ہے۔ باقی اضافی چیزیں ہیں جن میں  تسبیحات ہیں اور  رکوع و سجود ہیں جبکہ  قرآن مجید کا کچھ حصہ آپ اور بھی پڑھ لیتے ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رض سے مروی متفق علیہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

لاَ صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ

یعنی جو شخص نماز میں سورة الفاتحہ نہیں پڑھتا اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث میں یہ مضمون آیا ہے۔

اس اعتبار سے بھی ہمارے ہاں ایک فقہی اختلاف موجود ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث کو اتنا اہم سمجھا ہے کہ آپ باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں تب بھی ان کے نزدیک آپ امام کے ساتھ ساتھ ضرور سورة الفاتحہ پڑھیں گے۔ چناچہ امام ہر آیت کے بعد وقفہ دے۔ امام جب کہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

تو اس کے بعد مقتدی بھی کہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ خواہ اپنے دل میں کہے۔ پھر امام کہے : الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ تو مقتدی بھی دل میں کہہ لے  اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ یہ موقف ہے امام شافعی رح کا کہ نماز چاہے جہری ہو چاہے سری ہو  اگر آپ امام کے پیچھے پڑھ رہے ہیں تو امام اپنی سورة الفاتحہ پڑھے گا اور آپ اپنی پڑھیں گے اور لازماً پڑھیں گے۔

امام ابوحنیفہ رض کا موقف اس کے بالکل برعکس ہے کہ امام جب سورة الفاتحہ پڑھے گا تو ہم پیچھے بالکل نہیں پڑھیں گے  بلکہ امام کی قراءت ہی مقتدیوں کی قراءت ہے۔ ان کا استدلال  قران پاک کی سورت العراف کی آیت

وَاِذَا قُرِئَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَهٗ وَاَنۡصِتُوۡا لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ (204)‏ 

ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

نیز ان کا کہنا ہے کہ نماز باجماعت میں امام کی حیثیت سب کے نمائندے کی ہوتی ہے۔ اگر کوئی وفد کہیں جاتا ہے اور اس وفد کا کوئی سربراہ ہوتا ہے تو وہاں جا کر گفتگو وفد کا سربراہ کرتا ہے ‘ باقی سب لوگ خاموش رہتے ہیں۔

ان کے علاوہ ایک درمیانی مسلک بھی ہے اور وہ امام مالک رح اور امام ابن تیمیہ رح وغیرہما کا ہے۔ اس ضمن میں ان کا موقف یہ ہے کہ جہری رکعت میں مقتدی سورة الفاتحہ مت پڑھے  بلکہ امام کی قراءت خاموشی سے سنے  “اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم پوری توجہ سے اسے سنا کرو اور خود خاموش رہا کرو ‘ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔” چناچہ جب امام بالجہر قراءت کر رہا ہے :  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ لرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔  تو آپ سنیے اور خود خاموش رہیے ‘ لیکن جو سرّی نماز ہے اس میں امام اپنے طور پر سورة الفاتحہ پڑھے اور آپ اپنے طور پر خاموشی سے پڑھیں۔ یہ درمیانی موقف ہے ۔

 

 

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top